ہم آپ کو جماعت رضائے مصطفےٰ پاکستان کی ویب سائٹ میں خوش آمدید کہتے ہیں ۔

Saturday 18 August 2012

RAMZA 8


                فضائل رمضان المبارک   (قسط نمبر8)    

روزہ کے نہایت ضروری مسائل کا بیان:
 وہ احکام جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور نہ مکروہ ہوتا ہے
    روزہ میں بھول کر کتنا ہی کھا لینایا پانی پی لینا یا جماع کر لینا اور یاد آتے ہی فوراً کھانا وغیرہ تھوک دینا اور جماع سے علیحدہ ہو جانا ۔سوتے میں نہانے کی حاجت ہو جانا ۔ کسی عورت کو دیکھ کر انزال ہوجانا ۔ سر میں یا مونچھوں میں خواہ داڑھی یا بدن میں تیل لگا لینا یا مالش کرنا ' پچھنے لگوانا ۔ سُرمہ صبح سے شام تک کسی وقت لگا لینا ۔ اپنی بیوی سے بغل گیر ہونا یا بیوی کو بوسہ دینا ۔(اگراپنے نفس پر کنٹرول ہو کہ ان امور سے انزال نہ ہو گا۔ورنہ بصورت دیگر روزہ ٹوٹ جائے گا) اگر عورت نے مرد کو چھوا اورمرد کو انزال ہوگیا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔اگر کسی مرد نے عورت کو کپڑے کے اوپر سے چھوا اور کپڑا اتنا موٹا تھا کہ بدن کی گرمی محسوس نہیں ہوئی تو روزہ نہیں ٹوٹے گا اگرچہ مرد کو انزال ہوجائے۔روزہ کی حالت میں ہونٹ اور زبان چوسنا مکروہ ہے اس سے اگر تھوک اندر چلا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ صبح سے شام تک جب جی چاہے سنت سمجھ کر مسواک (تر ہو خواہ خشک ) کرنا۔ گیلا کپڑا گرمی کے دفع کرنے کو اوڑھ لینا یا سر پر گرمی کی شدت سے پانی ڈالنا البتہ گھبراہٹ ظاہر کرنا مکروہ ہے ۔اگر آنسو قطرہ دو قطرہ منہ میں چلے جائیں کچھ حرج نہیں مگر اگر نمکین مزہ معلوم ہو اور نگل جائے قضا لازم ہو گی ۔منہ میں دھواں یا غبار یا مکھی کا بے اختیار داخل ہو جانا ۔ البتہ اگر آپ سے دھواں منہ میں لے گا خواہ عود عنبر ہی سلگا کر تو ضرور قضا لازم آئے گی ۔ بہت کم چیز جو دانتوں میں رہ جاتی ہے اور زباں پھیرنے سے نکل آتی ہے کھا لینا ۔خود بخود بلااختیار قے کا آنا اور بلا اختیار حلق میں لوٹ جانا۔ خوشبو لگانا ' عطر ملنا۔
وہ احکام جن سے روزہ ٹوٹ جائے اور فقط قضا لازم آئے:
    قے کو قصداً حلق میں لوٹانا' قصداً قے کرنا' منہ بھر کے ہو یا نہ ہو۔ بقول امام محمد رحمۃ اللہ علیہ بحر الرائق میں ہے کہ ظاہر الروایت قول امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ہی ہے لہٰذا فتویٰ اسی پر ہونا چاہیئے اگرچہ امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جب قصداً منہ بھر کے قے کرے ۔صاحب درمختار فرماتے ہیں ''یہ روایت صحیح ہے '' بہر نہج قول امام محمد رحمۃ اللہ علیہ میں احتیاط ہے اور قول امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ رخصت پر مبنی ہے ۔
    روزہ کی حالت میں پاخانہ کرتے ہوئے اگرپاخانہ کا مقام باہر نکل آئے تو اُسے پانی سے دھونے کے بعد کپڑے سے بالکل خشک کرکے اُٹھنا چاہیئے کہ تری بالکل باقی نہ رہے ۔اگر پانی کی تری باقی تھی اور یہ مقام اندر چلا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔اسی وجہ سے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ روزہ دار استنجاہ کرنے میں سانس نہ لے۔
کنکریا لوہے وغیرہ کو نگل جانا۔ بحر الرائق میں ما حصل اس مسئلہ کا یہ ہے کہ جو چیز نہ بطریق دوا کے کھائی جائے' نہ بطریق غذا کے جیسے پتھر 'مٹی ' آٹا خشک ' چاول' گندھا آٹا ان کے کھانے سے فقط روزہ کی قضا لازم آتی ہے نہ کہ کفارہ بشرطیکہ ان چیزوں کے کھانے کی عادت نہ ہو اور اگر ان چیزوں کے کھانے کی عادت رکھتا ہو یا مکررسہ کرر فقط روزہ دار ان کی ضد پر بغرض اظہار گناہ یہ حرکت کرتا ہے تو زجرا اس پر کفارہ بھی لازم ہو گا ۔ علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں اسی پر فتویٰ مناسب ہے اور بہت شہروں کے علماءِ دین نے اسی پر فتویٰ دیا ہے۔
بغیر جماع یا لواطت (یعنی اغلام) کے اگر اور کسی طریق بے جا سے انزال ہو جائے۔ علاوہ رمضان کے روزہ کے اگر نفلی یا نذر کا روزہ توڑ دیا جائے
     کسی ضرورت سے حقنہ کرایا جائے یا کسی قسم کی ناس سونگھ لی جائے ۔یا کان میں علاوہ پانی کے کچھ ٹپکایا جائے اور پانی کے ٹپکائے جانے میں اختلاف ہے۔ احتیاط اس میں ہے کہ اگر کان میں ٹپکا لیا جائے اُس روزہ کو پورا کرے اور اُس کا قضاء
روزہ بھی رکھ لے۔
    اسی طرح اگر پیٹ کے یا سر کے زخم میں دوا ٹپکائی جائے اور وہ پیٹ یا دماغ تک پہنچ جائے اور سوراخ ذکر میں پانی یا دوا یا تیل ٹپکانے سے اگر مثانہ تک پہنچ جائے ضرور قضا لازم ہو گی مگر امام اعظم اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں کہ مثانہ تک سوراخ ذکر میں ٹپکانے سے کچھ نہیں پہنچ سکتا ۔ البتہ عورت کی شرمگاہ میں اگر کوئی دواٹپکائی جائے گی ضرور مثانہ تک پہنچ جائے گی لہٰذا بالاتفاق عورت پر اُس کی قضا ضرور لازم ہو گی۔ اور امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق یہی ہے کہ مرد و عورت دونوں کی مثانہ تک ٹپکانے سے دوا پہنچ جاتی ہے لہذا دونوں پر قضا لازم ہو گی۔ بضرورت اگر شافہ رکھا جائے ' جائز ہے ۔ غروبِ آفتاب کے یقین پر بوجہ ابر و غبار افطار کر لیا یا رات کے گمان پر کھاتے رہے پھر معلوم ہوا کہ غروب نہیں ہوا تھا یا صبح صادق ہو گئی تھی۔ اس روزہ کی قضا کر لی جائے۔
وہ احکام جن سے قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہو جاتے ہیں
قصداً جماع کرنا یا جماع کروانا' خواہ لواطت کرنا یا لواطت کرانا۔ روزہ رکھ کر قصداً روزہ میں دوا یا کاغذ کا کھانا یا کسی چیز کا پینا۔روزہ کو قصداً توڑنے کا کفارہایک غلام شرعی آزاد کرنا ' اگر غلام آزاد نہ کر سکے ' ساٹھ(٦٠) دن پے در پے روزے رکھے۔ بعد قضا کرنے اُس روز کے جس کو توڑا ہے' کفارہ کے روزے اس طرح رکھے کہ اُن کے درمیان عید یا بقر عید اور ایام تشریق یعنی گیارھویں 'بارھویں 'تیرھویں ذی الحجہ کی نہ آئے اس واسطے کہ ان دنوں میں روزہ رکھنا ناجائز ہے۔ اگر کفارہ کے روزے شروع کر کے ایک ماہ یا دس دن بعد مثلاً روزہ توڑ دیا یا ایک دن روزہ نہ رکھا ' یہ روزے نفلی ہو گئے اور کفارہ کے روزے پھر سے شروع کرے۔
    کفارہ کے روزوں میں اگر ایام حیض آ جائیں اور حیض سے پاک ہوتے ہی پھر روزے شروع کر دے تو از سر نو شروع کرنے کی ضرورت نہیں ' یہ فاصلہ درمیانی معاف ہے۔ البتہ بعد پاکی کے اگر ایک دن بھی روزہ نہ رکھے گئے پھر اَز سرِ نور وزے رکھنے پے در پے دو ماہ کے لازم ہوں گے۔سفر یا نفاس کی وجہ سے اگر کفارہ کے روزے شروع کر کے ایک دن ہی روزہ ترک کر دیا اَز سرِ نور روزے شروع کرنا لاز م ہو گا ۔
    البتہ اگر روزہ نہ رکھ سکے' ساٹھ مسکینوں کو صبح شام دو وقتہ پیٹ بھر کر کھانا کھلائے ۔ اگر جَو جوار کی روٹی ہوں 'ترکاری کا ہونا ضروری ہے اور اگر گیہوں کی روٹی ہوں تو ترکاری کے ساتھ کھلانا مستحب ہے ۔یا اُن کوفی کس آدھ پاؤ کم دو سیر گیہوں کا مالک بنانا اور احتیاط یہ ہے کہ فی کس تین چھٹانک دو سیر گیہوں دئیے جائیں ۔ اسی روپیہ بھر کے انگریزی سیر سے۔ اس واسطے کہ وزن صاع میں جو ایک پیمانہ ہے اختلاف ہے 'ا گر ساٹھ مسکینوں کے گیہوں جو بقول احتیاطی تین من چار سیر تقریباً ہوتے ہیں۔ ایک مسکین کو دے دےں تو فقط ایک مسکین کے حصہ سے برأت ہو گی اور اُنسٹھ مسکینوں کو دینا باقی رہے گا ۔ البتہ ایک مسکین کو دو وقت ساٹھ دن تک کھلایا جائے تو بلاشبہ کفارہ ادا ہوجائے گا ۔
    مثل زکوٰۃ کے اس کفارہ کے گیہوں باپ 'بیٹے کو نہیں دے سکتا۔ علیٰ ہذا بیٹا باپ دادا کو 'نہ میاں بیوی کو 'نہ بیوی میاں کو 'سادات کو مثل زکوٰۃ دینا بہتر نہیں اور کافر کو نہیں دے سکتے۔
روزہ کے مکروہ اور جائز امور:
    کسی کی غیبت کرنا' کسی چیز کو بلاضرورت سخت مثل خوف شوہر ظالم یا حاکم ظالم کے چکھ لینا' یا کسی چیز کا چبانا اور اگر بچہ کو چبا کر کوئی بے روزہ دار مثل حائضہ عورت یا نابالغ بچہ کو کھلانا والا نہیں ہے اور بچہ بھوک سے پریشان ہے لہذا اگر اُس کو چبا کر کھلا دیا جائے تو بلا کراہت جائز ہے ۔ علیٰ ہذا مصطگی وغیرہ ایسا گوند چبانا جو کھل کر اندر نہ جائے۔
کس حالت میں روزہ رکھ کرروزہ توڑنا جائز ہے:
     غلبہئ ظن کے ساتھ یا طبیب مسلمان متقی کے کہنے سے خوف زیادتی مرض کا ہو تو روزہ توڑنا جائز ہے۔ چنانچہ صاحب بحرالرائق خلاصہ سے نقل فرماتے ہیں کہ اگر بخار کی باری کے دن باری کے بخار والے نے روزہ رکھ کر توڑ دیا ۔ اگر بخار آ گیا فقط قضا لازم ہو گی اور اگر بخار نہ آیا 'علاوہ قضا کے کفارہ بھی لازم ہو گا ۔
     کسی زبردست کی زبردستی سے بخوف جان یا مال یا نقصان کسی عضو کے بھی افطارجائز ہے ۔ اگر کسی زبردست کی زبردستی سے بخوفِ جان ومال یا نقصان عضو سفر کرنا پڑے کہ جس سے جان پر آبنے 'افطارجائز ہے ۔
    حمل گرنے کے خوف سے سفر میں بے حد تھک جانے اور جان تک نوبت پہنچ جانے کے وقت .دودھ پلانے والی کو بچے کے تلف ہونے کے یقینی خوف کے وقت شدتِ پیاس اور بھوک کے وقت جب جان پر آ بنے اور یک لخت ایسا ضعف اور بڑھاپا عارض ہونے سے کہ روزہ پورا کرنے میں خوف شدت ِمرض یا جان ہو اور ان لوگوں کو رخصت ہے کہ پہلے سے روزہ کی نیت نہ کرےں اور بعد ازالہ ئخوف روزے قضا کر لیں ۔ شیخ فانی جس کو اپنی تندرستی کی اُمید نہ ہو روزانہ ایک مسکین کو دو وقت ترکاری کے ساتھ شکم سیر کھانا کھلا دیا کرے پھر اگر تندرست ہوجائے ضرور قضاء کرے' ورنہ گنہگار ہو گا ۔ اگر باوجود طاقت نہ کھلائے گا ' ہاں اگر ایسا ہے مسکین ہے تو استغفار پڑھتا رہے اور سچا ارادہ رکھے کہ اگر طاقت آ جائے گی ' ضرور قضا کر لوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورتوں کے خصوصی مسائل:
    اگر کسی عورت نے نفلی روزہ رکھا ہو تو حیض آنے پر اُس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اس روزے کی قضا کرنا اس پر واجب ہے کیونکہ نفل شروع کرنے کے بعد اس کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے ۔ (یہی حکم فرض روزہ کا بھی ہے) اگر کسی عورت کو افطاری سے ایک منٹ پہلے حیض آ جائے تو اُس کا روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس کی قضا کرنا اس پر واجب ہو گی۔ بعض عورتیں سحری کھانے میں اتنی تاخیر کرتی ہیں کہ فجر کی اذان ہو جاتی ہے اور عورتوں میں یہ مشہور ہے کہ سحری کا وقت فجر کی اذان تک ہوتا ہے ۔ یہ بات بالکل غلط ہے' اذان نماز کیلئے ہوتی ہے سحری کیلئے نہیں۔ اذان سے پہلے سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے ' جو عورت اذان کے آخری لفظ تک کھاتی رہے گی تو اس کا روزہ نہیں ہو گا ۔ اس روزے کی قضا اس پر لازم آئے گی۔ روزے کی حالت میں مسواک کرنا سنت مبارکہ ہے ۔ منجن اور ٹوتھ پیسٹ وغیرہ مکروہ ہیں۔ روزے کی حالت میں اگر کسی عورت نے کوئی رنگین دھاگہ منہ میں ڈالا جس سے تھوک رنگین ہو گئی اور اس کا ذائقہ حلق میں محسوس ہوا تو ایسی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا۔
    روزے کی حالت میں سر پر تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا' مگر کان میں تیل ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ روزے کی حالت میں آنکھوں میں سرمہ لگانا جائز ہے اگر کسی عورت پر سحری کے وقت غسل فرض ہوا لیکن اس کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ غسل کرے اگر غسل کرے گی تو سحری کا وقت ختم ہو جائے گا ۔ ایسی صورت میں اس عورت کو چاہیئے کہ وہ حلق تک اچھی طرح پانی پہنچائے اور ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچائے۔ کیونکہ روزے کی حالت میں ایسا کرنا مکروہ ہے پھر وہ روزے کی نیت کر کے سحری کھالے اور روزہ رکھنے کے بعد غسل کر کے نماز فجر ادا کرے۔ حیض و نفاس والی عورت کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ احترام رمضان بجا لائے اور رمضان المبارک کے دنوں میں چھپ کر کھائے پئے' عورتین روزے کی حالت میں اندرونی چیک اَپ کروانے سے پرہیز کریں کیونکہ اس صورت میں روزہ ٹوٹ
جائے گا۔اگر کسی عورت نے اعتکاف بیٹھنا ہو تو اُس کیلئے یہ شرط ہے کہ وہ حیض و نفاس اور جنابت سے پاک ہو ۔ اعتکاف شروع کرنے سے پہلے حیض کے دنوں کا اندازہ کر لینا چاہیئے کہ کہیں اعتکاف کے دوران حیض تو نہیں آ جائے گا۔ اگر حیض آنے کا یقین ہو تو عورت کو اعتکاف نہیں کرناچاہیئے۔ اگر کسی عورت کو دورانِ اعتکاف حیض آ جائے تو اُس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔اعتکاف کی قضا کا طریقہ یہ ہے کہ حیض سے پاک ہونے کے بعد اگر رمضان المبارک کے دن باقی ہیں تو کسی دن مغرب سے پہلے قضا اعتکاف کی نیت سے اگلے دن غروب آفتاب تک اپنے گھر میں (اعتکاف والی جگہ پر) معتکف رہے۔ اگر رمضان شریف کا مہینہ ختم ہو گیا ہو تو کسی عام دن میں اسی طرح غروب آفتاب سے پہلے (نماز عصر کے بعد) اعتکاف والی جگہ پر بیٹھ جائے اور اس میں روزہ بھی رکھے پھر اگلے دن افطاری کر کے اُٹھ جائے تو اعتکاف کی قضا مکمل ہو جائے گی۔ عورت کیلئے یہ ضروری ہے کہ اعتکاف شروع کرنے سے پہلے اپنے شوہر سے اجازت لے۔ عورتیں دورانِ اعتکاف زیادہ سے زیادہ عبادت کی طرف توجہ دیں ' گھریلو کام کاج کی طرف بالکل توجہ نہیں دینی چاہیئے تا کہ عبادت میں کمی نہ آئے۔ دورانِ اعتکاف دینی کتابوں کا مطالعہ اور درسی کتب پڑھنا جائز ہیں لیکن دنیاوی رسائل اور اخبارات کا مطالعہ ہر گز نہیں کرنا چاہیئے۔
اعتکاف کی فضیلت کابیان:
جوشخص رمضان المبارک کے علاوہ بھی صرف ایک دن مسجد کے اندر اخلاص کے ساتھ اعتکاف کر لے ' اُس کیلئے بھی ثواب کی بشارت ہے۔ چنانچہ اعتکاف کی فضیلت بیان کر تے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا '' جو شخص اللہ عزوجل کی رضا و خوشنودی کیلئے ایک دن کا اعتکاف کرے گا اللہ عزوجل اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقین حائل کر دے گا' جن کی مسافت مشرق و مغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ ہو گی''۔
 (الدر المنثور جلد١، ص ٤٨٦)
اعتکاف ایک ایسی خصوصی عبادت ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کو بہت ہی محبوب ہے۔ عمومی طور پہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت میں لیلۃ القدر کے حصول کیلئے اعتکاف کیا جاتا ہے ۔ جس کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے اور رمضان المبارک کے مقدس مہینہ کے آخری عشرہ میں جن عبادات کو خصوصی طور پہ اہمیت حاصل ہے ان میں بطور خاص ایک عبادت اعتکاف بھی ہے۔
سابقہ گناہوں کی بخشش:
اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔من اعتکف ایمانا وا حتسانا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ
    ترجمہ: ''جس شخص نے ایمان کے ساتھ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے اعتکاف کیا' اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے''۔(جامع صغیر ، ص
١٦، )
دو حج اور دو عمروں کا ثواب:امیر المومنین حضرت مولائے کائنات علی المرتضیٰ ' شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ محمد مصطفےٰ ' حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان مبارکہ ہے کہ من اعتکف فی رمضان کان کححتین و عمرتین۔
ترجمہ: ''جس نے رمضان المبارک میں (دس دن کا) اعتکاف کر لیا وہ ایسا ہے جیسے دو حج اور دو عمرے کئے''۔(شعب الایمان جلد٣، ص ٢٥)روزانہ حج کا ثواب:حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ''معتکف کو ہر روز ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔ (شعب الایمان جلد٣، ص ٢٥)
نیکیوں سے مالا مال:
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اعتکاف کرتا ہے وہ گناہوں سے بچا رہتا ہے اور نیکیوںکا اسے اس قدر ثواب ملتا ہے جیسے اس نے تمام نیکیاں ہی کی ہوں۔ (مشکوٰۃ' ابن ماجہ)
تین سو شہیدوں کا ثواب:حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے پیش نظر ایک دن اور ایک رات کا اعتکاف کرے تو اللہ تعالیٰ اسے تین سو شہیدوں کا ثواب عطا فرمائے گا۔ 
(تذکرہ الواعظین)
بخشش و رحمت:
حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا مسجد ہر متقی کا گھر ہے اور جس شخص نے بھی مسجد کو اپنا ٹھکانہ بنایا یعنی مسجد میں اعتکاف کیا تو اللہ تعالیٰ اسے آرام و راحت ' بخشش و رحمت ' اپنی رضا و خوشنودی ' پل صراط سے بآسانی گذارنے اور جنت میں داخلے کی ضمانت دیتا ہے۔ (رواہ الطبرانی)
اعتکاف توڑنے والی چیزوں کا بیان:
    اب ان باتوں کا بیان کیا جاتا ہے جن کے کرنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے' جہاں مسجد سے نکلنے پر اعتکاف ٹوٹنے کا حکم ہے وہاں احاطہ مسجد (یعنی عمارت مسجد کی حدود) سے نکلنا مراد ہے ۔ ام المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں ''معتکف کیلئے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ نہ کسی مریض کی عیادت کو جائے' نہ کسی جنازے میں شامل ہو' نہ کسی عورت کو چھوئے' نہ اُس کے ساتھ ملاپ کرے' اور نہ ہی ناگزیر ضروریات کے سوا کسی بھی ضرورت کیلئے باہر نکلے''۔ (سنن ابی داؤد جلد٢، ص ٤٩٢)
جن ضروریات کا پیچھے ذکر کیا گیا ہے' ان کے سوا کسی بھی مقصد سے اگر آپ حدود مسجد (یعنی احاطہ مسجد) سے باہر نکل گئے ' خواہ یہ نکلنا ایک ہی لمحے کیلئے ہو تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (مراقی الفلاح ص ١٧٩)
    واضح رہے کہ مسجد سے نکلنا اس وقت کہا جائے گا جب پاؤ ں مسجد سے اس طرح باہر نکل جائیں کہ اسے عرفا مسجد سے نکلنا کہا جا سکے۔ لہٰذا اگر صرف سر مسجد سے نکال دیا تو اس سے اعتکاف فاسد نہیں ہو گا ۔(البحر الرائق جلد
٢، ص ٥٣)
    بلا ضرورت شرعی مسجد سے باہر نکلنا خواہ جان بوجھ کر ہو یا بھول کر' یا غلطی سے' بہرصورت اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ۔ البتہ اگر بھول کر یا غلطی سے باہر نکلیں گے تو اس سے اعتکاف توڑنے کا گناہ نہیں ہو گا ۔
 (ردالمختار جلد٣، ص ٤٣٨)
    اسی طرح آپ شرعی ضرورت سے (احاطہ مسجد سے) باہر نکلے لیکن ضرورت سے فارغ ہونے کے بعد ایک لمحے کیلئے بھی باہر ٹھہر گئے تو اس سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔ 
(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ، ص ٧٠٣)
    اعتکاف کیلئے چونکہ روزہ شرط ہے اس لئے روزہ توڑ دینے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ۔ خواہ یہ روزہ کسی عذر سے توڑا ہو یا بلا عذر جان بوجھ کر توڑ ا ہو یا غلطی سے ٹوٹا ہو' ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ۔ غلطی سے روزہ ٹوٹنے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ تو یاد تھا لیکن بے اختیار کوئی عمل ایسا ہو گیا جو روزے کے منافی تھا' مثلاً صبح صادق طلوع ہونے کے بعد کھاتے رہے' یا غروب آفتاب سے پہلے ہی اذان شروع ہو گئی یا سائرن شروع ہو گیا اور افطار کر لیا پھر پتا چلا کہ اذان و سائرن وقت سے پہلے ہی ہو گئے ہیں۔ اس طرح بھی روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ یا روزہ یاد ہونے کے باوجود کلی کرتے وقت بے اختیار پانی حلق میں چلا گیا' تو ان تمام صورتوں میں روزہ بھی جاتا رہا اور اعتکاف بھی ٹوٹ گیا ۔
اگر روزہ ہی یاد نہ رہا اور بھول کر کچھ کھا پی لیا تو اس سے نہ روزہ ٹوٹا اور نہ ہی اعتکاف۔
    معتکف مرد اورعورتیں یہ ضابطہ یاد رکھیں کہ وہ تمام اُمور جن کے ارتکاب سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ' اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔
    جماع کرنے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ۔ خواہ یہ جماع جان بوجھ کر کرے یا بھول کر دن میں کرے یا رات میں' مسجد میں کرے یا مسجد سے باہر ' اس سے انزال ہو یا نہ ہو' ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
(درمختار من ردالمختار جلد٣، ص ٤٤٢)
    بوس و کنار اعتکاف کی حالت میں ناجائز ہے اور اگر اس سے انزال ہو جائے تو اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے لیکن اگر انزال نہ ہو تو ناجائز ہونے کے باوجود اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔ (ردالمختار جلد٣، ص ٤٤٢)
    پیشاب کرنے کیلئے (احاطہ مسجد سے باہر) گیا تھا' قرض خواہ نے روک لیا' تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔(عالمگیری جلد
١، ص ٢١٢)
    معتکف اگر بے ہوش یا مجنون (یعنی پاگل ) ہو گیا اور بے ہوشی یا جنون اتنا طول پکڑ جائے کہ روزہ نہ ہو سکے تو اعتکاف جاتا رہا اور قضا واجب ہے ۔ اگرچہ کئی سال کے بعد صحت مند ہو۔ (عالمگیری جلد١، ص ٢١٣)
    معتکف مسجد ہی میں کھائے' پئے ' ان اُمور کیلئے مسجد سے باہر جائے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔ (نبین الحقائق جلد
٢، ص ٢٢٩) مگر یہ خیال رہے کہ مسجد آلودہ نہ ہو۔
    اگر آپ کیلئے کھانا لانے والا کوئی نہیں تو پھر آپ کھانا لانے کیلئے مسجد سے باہر جا سکتے ہیں لیکن مسجد میں لا کر کھانا کھائیے۔ (البحر الرائق جلد٢، ص ٥٣٠)
مرض کے علاج کیلئے مسجد سے نکلے تو اعتکاف فاسد ہو گیا۔ (ردالمختار جلد٣، ص ٤٣٨)
    اگر کسی معتکف کو نیند کی حالت میں چلنے کی بیماری ہو اور وہ نیند میں چلتے چلتے مسجد سے نکل گیا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا ۔
    کوئی بدنصیب دوران اعتکاف مرتد ہو گیا (نعوذ باللہ عزوجل) تو اعتکاف باطل ہے اور پھر اگر اللہ عزوجل مرتد کو ایمان کی توفیق عنایت فرمائے تو فاسد شدہ اعتکاف کی قضا نہیں۔ کیونکہ ارتداد (یعنی اسلام سے پھر جانے) سے زمانہ اسلام کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ (درمختار مع ردالمختار جلد٣، ص ٤٣٧)
    عورتیں مسجد میں نہیں صرف مسجد بیت میں اعتکاف کریں ۔ مسجد بیت اُس جگہ کو کہتے ہیں جو عورت گھر میں اپنی نماز کیلئے مخصوص کر لیتی ہے ۔ عورتوں کیلئے یہ مستحب بھی ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کیلئے جگہ مقرر کریں اور اُس جگہ کو پاک و صاف رکھیں اور بہتر یہ ہے کہ اُس جگہ کو چبوترے وغیرہ کی طرح بلند کر لیں بلکہ مردوں کو بھی چاہیئے کہ نوافل کیلئے گھر میں کوئی جگہ مقرر کر لیں کہ نفل نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے ۔(درمختار ' ردالمختار جلد
٣، ص ٤٢٩)
    اگرعورتوں نے نماز کے لئے کوئی جگہ مقرر نہیں کر رکھی تو گھر میں اعتکاف نہیں کر سکتی' البتہ اگر اُس وقت یعنی جبکہ اعتکاف کا ارادہ کیا کسی جگہ کو نماز کیلئے خاص کر لیا تو اُس جگہ اعتکاف کر سکتی ہے۔(درمختار ' ردالمختار جلد٣، ص ٤٢٩)
کسی اور کے گھر جا کر عورتیں اعتکاف نہیں کر سکتی:
شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کیلئے اعتکاف کرنا جائز نہیں۔ (درمختار جلد٣، ص ٤٢٩)
    اگر بیوی نے شوہر کی اجازت سے اعتکاف شروع کر دیا' بعد میں شوہر منع کرنا چاہتا ہے تو اب منع نہیں کر سکتا۔ اور اگر منع کرے گا تو بیوی کے ذمے اس کی تعمیل واجب نہیں۔ (عالمگیری جلد
١، ص ٢١١)
    عورتوں کے اعتکاف کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حیض اور نفاس سے پاک ہوں کہ ان دنوں میں نماز ' روزہ اور تلاوت قرآن حرام ہے۔ (عامہ کتب)
    عورتوں میں یہ عام طور پرغلط فہمی پائی جاتی ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ نفاس کی مدت مکمل چالیس دن ہے حالانکہ ایسا نہیں۔ حکم شریعت یہ ہے کہ اگر خون ایک دن میں بند ہو گیا بلکہ بچہ ہونے کے بعد فوراً ہی بند ہو گیا تو نفاس ختم ہوا' غسل کر کے نماز' روزہ شروع کر دیں۔
حیض کی مدت کم از کم تین دن رات اور زیادہ سے زیادہ دس دن رات ہے۔ تین دن اور تین رات کے بعد جب بھی خون بند ہوا فوراً غسل کر لیں اور نماز وغیرہ شروع کر دیں۔ اور اگر دس دن رات کے بعد خون جاری رہا تو استحاضہ یعنی بیماری ہے۔ دس دن رات پورے ہوتے ہی غسل کر کے نماز روزہ شروع کر دیں۔ اعتکاف شروع کرنے سے قبل یہ دیکھ لینا چاہیئے کہ ان دنوں میں ماہواری کی تاریخیں آنے والی تو نہیں۔ اگر تاریخیں رمضان کے آخری عشرہ میں آنے والی ہوں تو اعتکاف شروع ہی نہ کریں۔
    اگر حالت اعتکاف میں عورت کو حیض آ جائے تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
 (بدائع الصنائع جلد٢، ص ٢٨٧، داراحیاء التراث العربی بیروت)
اعتکاف قضا کرنے کا طریقہ:
آپ نے رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا اور کسی وجہ سے ٹوٹ گیا تو تمام دنوںکی قضا کرنا ضروری نہیں۔ آپ کے ذمہ صرف اُس ایک دن کی قضا ہے جس دن اعتکاف ٹوٹا ہے ۔ اگر ماہ رمضان شریف کے دن ابھی باقی ہیںتو ان میں بھی قضا ہو سکتی ہے۔ اگر رمضان شریف گزرگیا تو پھر کسی دن قضا کر لیجئے اور اُس میں روزہ بھی رکھے مگر عید الفطر اور ذوالحجۃ الحرام کی دسویں تا تیرھویں کے علاوہ کہ ان پانچ دنوں کے روزے مکروہ تحریمی ہےں ۔ قضا کا طریقہ یہ ہے کہ کسی دن غروب آفتاب کے وقت (بلکہ احتیاط اس میں ہے کہ چند منٹ مزید قبل) بہ نیت قضا اعتکاف مسجد میں داخل ہو جائیے اور اب جو دن آئے گا اُس کے غروب آفتاب تک معتکف رہئے۔ اس میں روزہ شرط ہے۔
اعتکاف کا فدیہ:
اگر قضا کرنے کی مہلت ملنے کے باوجود قضا نہ کی اور موت کا وقت آ پہنچا تو وارثوں کو وصیت کرنا واجب ہے کہ وہ اس اعتکاف کے بدلے فدیہ ادا کر دیں اور اگر وصیت نہ کی اور ورثا فدیہ کی ادائیگی کی اجازت دے دیں تو بھی فدیہ ادا کرنا جائز ہے۔ 
(الفتاویٰ الہندیۃ جلد١، ص ٢١٣ )
    فدیہ ادا کرنا زیادہ مشکل نہیں ۔ اعتکاف کے فدےے کی نیت سے کسی مستحق زکوٰۃ کو صدقہ فطر کی مقدار میں (یعنی تقریباً دو کلو ٥٠ گرام) گیہوں یا اس کی رقم ادا کر دیں۔ 

                                               باقی آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ   

0 comments:

Post a Comment

Blogger Widgets
Blogger Widgets