ہم آپ کو جماعت رضائے مصطفےٰ پاکستان کی ویب سائٹ میں خوش آمدید کہتے ہیں ۔

Saturday 8 September 2012

CREEDS NO 7


عقائد اہل سنت قرآن وحدیث کی روشنی میں   

                     (قسط نمبر7)

   شفاعت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم:  
قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو شفاعت کا اختیار عطا فرمایا ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ کی عطا سے گنہگاروں کی شفاعت فرمائیں گے ۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
یومئذ لا تنفع الشفاعۃ الا من اذنلہ الرحمن ورضی لہ قولا۔
اس دن کسی کی شفاعت کام نہ دے گی مگر اس کی جسے رحمن (اللہ تعالیٰ) نے اِذن دے دیا ہے اور اس کی بات پسند فرمائی۔ (پارہ
١٦،سورۃ طٰہٰ ، آیت ١٠٩ )
٭ لا یملکون الشفاعۃ الا من اتخذعند الرحمن عھدا ۔
لوگ شفاعت کے مالک نہیں مگر وہی جنہوں نے رحمن کے پاس اقرار کررکھا ہے ۔
(پارہ
١٦، سورۃ مریم ، آیت ٨٧)
    واستغفر لھم الرسول لوجد وا اللہ توابا رحیما
o
اور رسول
صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شفاعت فرمائیں تو ضرور اللہ (عزوجل) کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔ (پارہ ٥،سورۃ نساء ، آیت ٦٤ )
احادیث مبارکہ : حضور نبی ئ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''قیامت کے دن میں حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد کا سردار ہوں گا سب سے پہلے میں اپنی قبر انور سے نکلوں گا سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی۔ 

(مسلم شریف ، کتاب الفضائل ، مشکوٰۃ شریف ،کتاب الفتن)
()میری شفاعت میری اُمت میں ان کیلئے ہے جو کبیرہ گناہ والے ہیں 

 (مشکوٰۃ شریف باب الفتن ، باب الحوض والشفاعۃ دوسری فصل ،ترمذی ، ابن ماجہ)
()میں اپنی اُمت کی شفاعت کروں گا یہاں تک کہ میرا رب مجھے فرمائے گا ''اے محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کیا تو راضی ہوا؟ میں عرض کروں گا ''اے میرے رب میں راضی ہوا ''۔ (درمنثور ، روح البیان)
سب سے پہلے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شفاعت فرمائیں گے ' اُس کے بعد دوسرے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ' اولیاء کرام ' قرآنِ پاک ' علمائے کرام ' شہداء ' رمضان المبارک ' حجر اسود اور مسلمانوں کے نابالغ بچے (وغیرہ) بھی شفاعت کریں گے ۔
یقینا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے ہر صحیح العقیدہ گنہگار اُمتی کی شفاعت فرما کر اُسے جنت میں داخل فرمائیں گے ۔
مجھ سا سیاہ کار کون  اُن  سا  شفیع   ہے  کہاں 
پھر وہ تجھی کو بھول جائیں دل یہ تیرا گمان ہے

  ندائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم     

قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر قید زمان و مکاں ہر وقت ہر جگہ لفظ یا سے پکارنا 'ندا کرنا ' یا رسول اللہ ' یا حبیب اللہ کہنا جائز و مستحب ہے ۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے:
یا ایھا النبی 'یا ایھا الرسول یا ایھا المزمل'یا ایھا المدثر
٭    لا تجعلوادعاء الرسول بینکم کدعا ء بعضکم بعضا ط
رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے ۔
(پارہ ١٨، سورۃ النور ، آیت ٦٣)
حدیث شریف: ینا د و ن یا محمد یا ر سو ل ا للہ
(صحیح مسلم شریف ص
٤١٩، جلد ٢)
٭ امیر المومنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد فرمایا '' دو موتیں نہ آئیں گی ، یعنی آپ نے موت کا ذائقہ چکھا وہ ہو گیا اس کے بعد حیات ہے ۔ حیات کے بعد پھر موت نہیں آئے گی جیسا کہ خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا فنبی اللہ حی ۔ اللہ کے نبی زندہ ہیں۔(ابن ماجہ ص
١١٩، جلاء الافہام ابن قیم)
٭ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انورپر حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول اپنی اُمت کیلئے بارش طلب فرمائیں ۔ تحقیق وہ ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد حضورنبی ئ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو خواب میں زیارت عطا فرمائی اور فرمایا کہ عمر کو میرا سلام کہنا اور خوشخبری دو بارش ہو گی۔مصنف ابن ابی شیبہ (از: امام محدث ابوبکر عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ' اُستاذ امام مسلم و بخاری) جلد نمبر
١٢، ص ٣٢ کتاب الفضائل ' فتح الباری شرح بخاری جلد ٢ ، ص ٤٩٥ نیز فرمایا اس کی سند صحیح ہے۔
٭ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق آپ کا جنازہ روضہ مبارک پر لے جا کر رکھ دیا گیا اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کی ''السلام علیک یا رسول اللہ '' یہ ابوبکر صدیق ہیں اجازت چاہتے ہیں ۔ (آپ کے پاس دفن ہونے کی) پھر اس کے بعد دروازہ مبارک کھل گیا اور آواز آئی ا د خلو ا لحبیب ا لی حبیبہ
(خصائص الکبریٰ محدث جلال الدین سیوطی ، تفسیر کبیر ص
٤٧٨، جلد ٥)
حضور نبی  پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد سیدنا عبد اللہ بن سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کا پاؤں سن ہوا تو انہوں نے پکارا یا محمد
صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت سیدنا خالد بن ولید نے مسیلمہ کذاب سے جنگ کے وقت فرمایا
بشعار المسلمین یا محمداہ (
صلی اللہ علیہ وسلم)
فتوح الشام ص ١٦٠ ، ج ١ ، ابن کثیر نے البدایہ ص ٣٢٤ جلد ٦ میں لکھا ہے ۔
کا ن شعا ر ھم یو مئذ یا محمد اہ
صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت عبیدہ بن الجراح کی قیادت میں حلب میں لڑنے والے اسلامی لشکر نے کہا ''یا محمد یا محمد یا نصر ا للہ انزل '' (تاریخ فتوح الشام ، ج
١)
حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ جب مسجد میں داخل ہوتے تو یہ پڑھتے
ا لسلام علیک ا یھا ا لنبی و رحمۃ ا للہ و برکا تہ
                 (الشفاء شریف جلد دوم ، ص
٥٣)
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہما) کا قدم مبارک سن ہوا تو انہوں نے پکارا '' یا محمد''
صلی اللہ علیہ وسلم ۔
(تحفۃ الذاکرین ص
٢٠٢ ، شوکانی ، الداء والدواء ص ٤٧ ، صدیق حسن خان)
قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ حضور نبی ئ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو لفظ یا سے ندا کرنا ' دور سے یا نزدیک سے پکارنا جائز ہے ' ان کی ظاہر ی زندگی میں بھی اوروصال کے بعد بھی' ہر طرح جائز اور باعث برکت ہے۔قرآن و حدیث عمل صحابہ اور ہر نمازی کا نماز میں سلام عرض کرنا یہ روشن دلیلیں موجود ہیں ۔ بدعقیدہ لوگ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کہنے والے کو مشرک کہتے ہیں ۔ لفظ یا سے پکارنے والے پر شرک کا فتویٰ لگتاہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یا سے ندا فرماتا ہے' صحابہ کرام آپ کی ظاہری زندگی میں بھی اور وصال کے بعد بھی یا سے پکارتے رہے ۔ ان کے بارے میں بدمذہبوں کا کیا عقیدہ ہے ۔ ان پر کیا فتویٰ لگے گا ۔
عقل ہوتی  تو خدا  سے نہ  لڑائی  لیتے
 یہ گھٹائیں   اُسے  منظور  بڑھانا  تیرا
غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل 
 یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی کثرت کیجئے
مزید حوالہ جات: حضرت عثمان بن حنیف کی حدیث میں آیا ہے '' یا محمد انی اتوجہ بک الی ربی ''یعنی یا محمد! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ۔ بیہقی اور جزری نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔
( ہدیۃ المہدی ص
٢٤ (عربی) ، نشر الطیب ص ٢٧٦ )
٭ ایک روایت میں ہے یا رسول اللہ انی توجہت بک الی ربی یعنی یا رسول اللہ ! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ''۔
         (ہدیۃ المہدی (عربی) ص
٢٤، مولوی وحید الزمان وہابی )
() حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ واللہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت آسمان سے میں نے یہ آواز سنی ''یا محمداہ
صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ( الشمامۃ العنبریہ ص ١١٣ ، صدیق حسن بھوپالوی )
() امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مناسک میں لکھا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تو اتنا ہی کہتے تھے ''السلام علیک یا رسول اللہ السلام علیک یا ابابکر ، السلام علیک یا ابتاہ ''۔ (فضائل حج ص
٩١٧ ، ذکریا سہارنپوری' دیوبندی)
()جو عوام الناس کہتے ہیں یعنی یا رسول اللہ، یا علی ، یا غوث تو اکیلی نداء سے ان پر شرک کا حکم نہیں دیا جائے گا اور کیسے دیا جا سکتا ہے ۔ جبکہ حضور ؐ نے بدر کے مقتولوں کو فلاں بن فلاں کہتے ہوئے پکارا تھا ۔ اور حضرت عثمان بن حنیف کی حدیث میں یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ بھی آئے ہیں اور ایک حدیث میں یا رسول اللہ کا لفظ بھی ہے ''۔ (ہدیۃ المہدی (اُردو) ص
٥١،٥٠)
() صلوٰۃ و سلام کے الفاظ میں تنگی نہیں ہے ادب شرط ہے ۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے قبر شریف پر سلام اس طرح پڑھاہے ''السلام علیک یا رسول اللہ، السلام علیک یا نبی اللہ، السلام علیک یا حبیب اللہ ، السلام علیک یا احمد ؐ ، السلام علیک یا محمد ؐ ۔ (الصلوٰ ۃ والسلام ص
١٢٦ ، فردوس شاہ قصوری وہابی)
()تفسیر ابن کثیر و مدارک میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کے بعد ایک اعرابی آیا اور اپنے کو روتے اور سر پر خاک ڈالتے ہوئے قبر شریف پر گرا دیا اور کہا ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے لئے استغفار فرمائیں ۔ قبر مبارک سے آواز آئی ''کہ تجھ کو بخش دیا گیا ہے''۔ (نشر الطیب ص
٢٧٩ ، فضائل حج ص ٢٥٣)
() (اشرف علی تھانوی نے کہا) اس بندہ نے آپ کو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مستغیث ہو کر اور اُمید کی چیزوں کا اُمید وار ہو کر پکارا ہے''۔ (نشر الطیب ص
٢٧٩ )
() جب روم کے بادشاہ نے مجاہدین اسلام کو عیسائیت کی ترغیب دی تو انہوں نے بوقت شہادت ''یا محمداہ''
صلی اللہ علیہ وسلم کا نعرہ لگایا جیسا کہ ہمارے اصحاب میں سے ابن جوزی نے روایت کیا ۔ (ہدیۃ المہدی ، نواب وحید الزمان حیدر آبادی)
() غوث پاک رضی اللہ عنہ نے فرمایا'' دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد
١٠٠ مرتبہ درود غوثیہ پڑھ کر ١١ بار یہ درود و سلام پڑھو
اغثنی یا ر سو ل ا للہ علیک ا لصلو ٰۃ و ا لسلام
( کتاب غوث اعظم ص
٣٢، احتشام الحسن کاندھلوی دیوبندی)
()صحابہ رضی اللہ عنہم سے ان کا قول ''السلام علیک ایھا النبی '' بغیر کسی اعتراض کے ثابت ہے اور حضور ؐ کا یہ قول ''یا ابراہیم اپنے مردہ فرزند کو ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور حضرت حسان کا فرمان '' و جا ہک یا ر سو ل اللہ جا ہ ''(یا حرف محبت ص
٩٤)
() حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ(علیہم السلام ) نے آپ کو بایں الفاظ سلام کیا
''ا لسلام علیک یا ا وّل ، ا لسلام علیک یا آخر ، السلام علیک یا حا شر ''۔ ( کتاب معراج مصطفےٰ ص
١٢ ، مولوی محمد علی جانباز وہابی)
() فضائل اعمال میں لکھا ہے : زمہجوری برآمد جان عالم تراحم یا نبی اللہ تراحم
آپ کے فراق سے کائنات عالم کا ذرہ ذرہ جاں بلب ہے اور دم توڑ رہا ہے ۔ اے رسول خدا
صلی اللہ علیہ وسلم نگاہ کرم فرمائیے اے ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم رحم فرمائیے''۔ (اسعد اللہ دیوبندی )

    باقی آئند انشاء اللہ عزوجل   

نوٹ: اگر آپ کو کوئی بد مذہب تنگ کرے اور طرح طرح کے سوالوں میں الجھائے تو آپ ہمارئے ساتھ ضرور رابطہ فرمائیں انشاء اللہ عزوجل آپ کی پریشانی دور کر دی جائے گی۔00923338159523

0 comments:

Post a Comment

Blogger Widgets
Blogger Widgets