ہم آپ کو جماعت رضائے مصطفےٰ پاکستان کی ویب سائٹ میں خوش آمدید کہتے ہیں ۔

Saturday 15 September 2012

CREEDS NO 9


   عقائد اہل سنت قرآن وحدیث کی روشنی میں   
              
              (قسط نمبر9)

نماز کے ضروری مسائل: 

نماز ادا کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ طہارت و پاکیزگی حاصل کی جائے' اچھی طرح وضو کیا جائے' اگر کسی پر غسل واجب ہو تو اُسے جلد غسل کر لینا چاہیئے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے بدن سے نجاست کو دور کریں ۔ پھر وضو کریں' کلی اور غرارہ کریں' ناک میں پانی ڈال کر نرم ہڈی تک اُوپر کھینچیں پھر سارے بدن پر اس طرح پانی بہائیں کہ ایک بال برابر بھی جگہ خشک نہ رہ جائے ' ورنہ غسل نہیں ہو گا ۔ جرابوں پر مسح کرنے سے نماز نہیں ہو گی ، اگر چمڑے کے موزے ہوں تو اُن پر مسح ہو سکتا ہے ۔ شلوار کو اُوپر کرکے ٹخنے ننگے کر لیں ، شلوار کو بل دے کر اُوپر نہیں کرنا چاہیئے ۔ بلکہ اُسی حالت میں اوپر کر لیں کلائی پر اگر لوہے کے چین والی گھڑی ہو تو اُسے اُتار دیں چادر ، رومال یا مفلر ہو تو اُسے سر کے اوپر اوڑھیں ۔چادر ، رومال یا مفلر اگر کندھوں پر ہو (دائیں بائیں لٹک رہا ہو )تو اس سے نماز صحیح ادا نہیں ہو گی ۔ سر پر عمامہ شریف یا کم از کم ٹوپی ضرور ہوکیونکہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ننگے سر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ دونوں پاؤں کے درمیان چار انگلیوں کا فاصلہ ہو ، نیت کر کے نماز شروع کر لیں اور ہاتھ ناف کے نیچے باندھیں رکوع کرتے وقت پشت اور سر برابر ہوں ، نماز پڑھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ نماز کے ہر رکن کو اطمینان سے ادا کیا جائے۔ بے توجہی سے نماز ادا کرنا ، نماز کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔سجدہ میں ناک اور پیشانی کوجما کر لگانا چاہیئے یہاں تک کہ زمین کی سختی محسوس ہو اور دونوں پاؤں کی انگلیوں کو دبا کر لگانا چاہیئے ۔ورنہ سجدہ صحیح نہیں ہو گا اور نما زادا نہیں ہو گی۔ نماز با جماعت ادا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر رکن میں امام کی اتباع کی جائے۔ کسی رکن میں بھی امام سے سبقت نہیں کرنی چاہیئے ۔ اگر تکبیر تحریمہ میں مقتدی نے امام سے سبقت کی تو اُس کی نماز نہیں ہو گی۔ اگر امام رکو ع سے اُٹھ رہا ہو تو مقتدی رکوع میں جا رہا ہو تو اس صورت میں بھی نماز نہیں ہو گی۔ اگر مقتدی نیت کرنے کے بعد (امام کے ساتھ) بغیر قیام کے فوراً رکوع میں چلا جائے تو اس کی نماز نہیں ہو گی۔ چار فرضوں والی نماز میں پہلی دو رکعتوں میں الحمد شریف کے بعد کوئی سورۃ ملا کر پڑھی جائے گی اور آخری دو رکعتوں میں صرف الحمد شریف (سورہ فاتحہ) پڑھی جائے گی۔ نماز مغرب کے تین فرضوں میں تیسری رکعت میں بھی صرف الحمد شریف پڑھی جائے گی۔ ظہر کی پہلی چار سنتوں میں چاروں رکعتوں میں الحمد شریف کے بعد کوئی سورۃ ملا کر پڑھی جاتی ہے۔ لیکن دو رکعتوں کے بعد التحیات ''عبد ہ ورسولہ''تک پڑھی جائے گی۔ اسی طرح جمعہ شریف میں دو فرضوں سے پہلے اور بعدچار چار سنتیں پڑھی جاتی ہیں۔ جن کی پہلی دو رکعتوں میں الحمد شریف کے بعد کوئی اور سورۃ ملائی جاتی ہے اور دو رکعتوں کے بعدالتحیات ''عبد ہ ورسولہ''تک پڑھی جائے گی۔ عصر' عشاء کی پہلی چار سنتیں جنہیں غیرمؤکدہ سنتیں کہتے ہیں چاروں رکعتوں میں الحمد شریف کے بعد کوئی اور سورۃ ملا کر پڑھنی ہیں اور دو رکعتوں کے بعدا لتحیات پوری آخر تک پڑھی جائے گی اور تیسری رکعت پھر ثناء سے شروع کی جائے گی۔ نماز عشاء کے تین وتروں میں تینوں رکعتوں میں الحمد شریف کے بعد کوئی سورۃ ملا کر پڑھیں اور تیسری رکعت میں رکوع جانے سے پہلے دعائے قنوت پڑھیں۔
مسافر کی نماز:
ستاون (٥٧) میل تین فرلانگ ۔تقریباً ٩٢ کلو میٹر یا اس سے زائد سفر ہو تو قصر نماز پڑھی جائے گی ۔ ظہر، عصر اور عشاء کے دو دو فرض پڑھے جائیں گے فجر ، مغرب کی نماز اور باقی سنتیں ، وتر ، نفل اُسی طرح پورے ہی پڑھے جائیں گے۔ اگر مسافر کسی مقیم امام کے پیھچے نماز باجماعت اداکرے تو چار فرض ہی پڑھے گا اپنے شہر کی حدود سے باہر نکلتے ہی قصر نماز شروع ہو جاتی ہے پھر جب مسافر اپنے شہر کی حدود میں واپس آئے گا تو اب نماز کے وقت پر پوری نماز ادا کرے گا ۔ مسافر اگر پندرہ دن یا اس سے زیادہ دن قیام کرے تو پھر وہاں پوری نماز ادا کرے گا ۔
بعد نماز بلند آواز سے ذکر کرنا:
قرآن پاک :   فاذا قضیتم الصلوٰۃ فاذکروا اللہ
پھر جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کی یاد کرو ۔ (پارہ ٥ ، رکوع ١٢،سورہ النسا آیت نمبر ١٠٣)
حدیث شریف:حضرت سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐجب اپنی نماز سے سلام پھیرتے تو بلند آواز سے فرماتے ۔ لا الہ الا اللہ ۔ الخ۔(مسلم ' مشکوٰۃ)
٭ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بے شک فرض نماز سے فارغ ہو کر بلند آواز سے ذکر کرنا حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانِ برکت نشان میں جاری تھا ۔ (مسلم شریف) قرآن و احادیث سے ثابت ہوا کہ فرض نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنا یہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت ہے۔
فاتحہ خلف الامام:
 قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ ہم نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھتے کیونکہ امام کی قرأت ہی مقتدی کی قرأت ہوتی ہے ۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون
o
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو ۔
(پارہ
٩، رکوع ١٤سورہ الانفال آیت نمبر٢٠٤)
احادیث مبارکہ:حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاکہ امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے تو جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم چپ رہو ۔
(نسائی ج
١ص١٤٦ ، ابن ماجہ ص٦١، مشکوٰۃ ص٨١)
٭ حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ''جس شخص کا امام ہو تو امام کی قرأت (ہی) مقتدی کی قرأت ہے ۔
             (ابن ماجہ ص
٦١،مصنف ابن شیبہ ج١ص٤١٤)
٭ حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ''جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قرأت اسے کافی ہے ''۔ (موطا امام مالک ص
٦٨)
٭ حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس نے رکعت پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو اس کی نماز نہ ہوئی مگر امام کے پیچھے ہو تو (بغیر فاتحہ) ہو جائے گی ۔ (موطا امام مالک ، ترمذی ، طحاوی)
    قرآن و احادیث مبارکہ سے یہ ثابت ہوا کہ جب مقتدی امام کے پیچھے نماز ادا کرے تو کسی نماز کی کسی رکعت میں مقتدی نے سورۃ فاتحہ (الحمد شریف) نہیں پڑھنی بلکہ خاموش کھڑے رہنا ہے ۔
نماز میں رفع یدین کی ممانعت: 
قرآن و حدیث کی روشنی میں ہم اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ ہمارے پیارے آقا حضور نبی اکرم نور مجسم شفیع معظم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نماز میں پہلے رفع یدین فرماتے تھے لیکن بعد میں آپ نے رفع یدین کرنا چھوڑ دیا اور نماز میں بار بار رفع یدین کرنے سے آپ نے منع فرمایا ہے قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ما اتکم الرسول فخذوہ وما نھکم عنہ فانتھوا واتقوا اللہ
اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللہ سے ڈرو ۔ (پارہ ٢٨، سورہ الحشر ، آیت ٧)
حدیث شریف:حضرت سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھر سے نکل کر ہمارے پاس مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا مجھے کیا ہے کہ میں تمہیں رفع الیدین کرتے دیکھ رہا ہوں ۔ جیسے سرکش گھوڑے دُمیں ہلاتے ہیں ۔ نماز میں سکون سے رہو ۔ (صحیح مسلم جلد١ ، ص ١٨١، سنن نسائی جلد ١ ، ص ١٧٦، ابوداؤد جلد١ ، ص ١٤٣، سنن الکبریٰ جلد ٢، ص ٢٨١، ابن حبان جلد ٣، ص ١٧٨، المعجم الکبیر جلد ٢ ، ص ٢٠٢)
()حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب نماز شروع فرمانے کیلئے تکبیر کہتے تو اپنے مبارک ہاتھوں کو اُٹھاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں انگوٹھے کانوں کی لَوْکے قریب ہو جاتے ۔ پھر پوری نماز میںرفع یدین نہ فرماتے ۔(طحاوی ،مصنف ابن ابی شیبہ ج
١ص٢٣٦،ابوداؤدج١ص١١٦،مصنف عبد الرزاق ج٢ ص٧٠)
٭ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کیا میں تمہارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نماز جیسی نماز نہ پڑھوں! پس آپ نے نماز پڑھی تو صرف ایک بار (شروع نمازمیں) ہاتھ اُٹھائے ۔ یعنی شروع نماز کے علاوہ رفع یدین نہ فرمایا ۔ یہ دیکھ کر کسی صحابی نے اس کا انکار نہیں کیا ۔ (نسائی ج١ص١٤١، ابوداؤد ، ترمذی ج١ص٣٥)
٭ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو مسجد حرام میں نماز پڑھتے دیکھا اور وہ رکوع میں جاتے اور رکوع سے اُٹھتے وقت رفع یدین کرتا تھا تو آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو بے شک یہ ایسا فعل ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پہلے کیا بعد میں چھوڑ دیا ۔ عمدۃ القاری ج٥ ص٢٧٣ (نہایہ) علامہ بدر الدین عینی شارح بخاری فرماتے ہیں ''رفع یدین شروع اسلام میں تھا پھر منسوخ ہو گیا''۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پہلے نماز میں رفع یدین فرمایا پھر بعد میں چھوڑ دیا ۔ غیر مقلد صرف رفع یدین کرنے والی احادیث پیش کریں گے لیکن یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آخر وقت تک رفع یدین کیا ہو ۔ جس چیز سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے منع فرمایا ہو اُس سے باز رہنا چاہیئے تا کہ نافرمانی نہ ہو ۔
بیس رکعت تراویح:
من یطع الرسول فقد اطاع اللہ
جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ عزوجل کا حکم مانا ۔
٥سورہ النساء آیت نمبر٨٠)
احادیث مبارکہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  رمضان شریف میں ہمیشہ بیس رکعت (تراویح) پڑھتے تھے ۔ وتر کے علاوہ (طبرانی ، بیہقی ج٢ ص٤٩٦ ،مصنف ابی شیبہ ج٢ ص٢٩٤)
    حضرت سائب بن یزید سے مروی ہے کہ ''ہم (صحابہ) حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے ۔
(بیہقی معرفتہ السنن بسند صحیح،آثارالسنن ص٥٥)
    حضرت ابوعبد الرحمن سلمیٰ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ نے رمضان شریف میں قاریوں کو بلایا پھر ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو پانچ ترویحے ، بیس رکعتیں پڑھاؤ اور حضرت علی انہیں وتر پڑھاتے تھے ۔ (سنن کبریٰ ،بیہقی ج٢ص٩٦ ٤)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیس رکعت (تراویح) اور تین وتر پڑھتے تھے
                     (عمدۃ القاری شرح بخاری)
    ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ الباری شرح نقایہ میں فرماتے ہیں کہ بیس رکعت تراویح پر مسلمانوں کا اجماع ہے کیونکہ بیہقی نے صحیح اسناد سے روایت کی ، صحابہ کرام اور سارے مسلمان سیدنا عمر فاروق ، سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے ۔ ثابت ہوا کہ بیس رکعت تراویح پڑھنا یہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ، سنت صحابہ اور اجماعِ اُمت ہے۔ اس کی مخالفت اللہ کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نافرمانی ہے۔ پاکستانی نجدی غور کریں کہ آج بھی عرب شریف ، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بیس رکعت تراویح پڑھائی جاتی ہیں۔
دعا بعد نماز جنازہ:
قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا کرنا' بخشش و مغفرت طلب کرنا' اپنے لئے یا کسی دوسرے مسلمان بھائی کیلئے جنازہ سے پہلے یا بعد جائز ہے ۔ اس میں کسی مخصوص وقت یا جگہ کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔
(سورہ غافر/ المومن' آلایہ
٦٠، پارہ ٢٤، رکوع ١١)
آیت نمبر ٢:
    دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے۔
(پارہ
٢، سورہ البقرہ، آیت ١٨٦، رکوع ٧)
حدیث مبارکہ:
اذا حملیتم علی المیت فاخلصوا لہ الدعائ
جب تم میت پر نماز جنازہ پڑھ لو تو اس کیلئے خاص دعا مانگو۔
(ابن ماجہ ص
١٠٩، مشکوٰۃ شریف ص ١٤٦، ابوداؤد شریف جلد٢، ص ١٠٠)
نمازِ جنازہ کے بعد مسلمان مل کر اپنے فوت شدہ بھائی کیلئے دعا مغفرت کرتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص گنہگار ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کسی نیک بندے کی دعا کے صدقے اُس کی بخشش و مغفرت فرما دیتا ہے۔ نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا ' قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ جو بدعقیدہ لوگ نماز جنازہ کے بعد دعا کے منکر ہیں اُن کو غور کرنا چاہیئے کہ حدیث مبارکہ میں ہے: من لم یسمال اللہ یغضب علیہ
    جو اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غضب فرماتا ہے۔
(ابن ماجہ ص
٢٨٠، ترمذی جلد٢، ص ١٧٥، مشکوٰۃ ص ١٩٥)
ثابت ہوا کہ ہم نماز جنازہ کے بعد دعا مانگ کر رحمت و بخشش حاصل کرتے ہیں ۔ اور منکرین انکار کر کے اپنے لئے او ر اپنے فوت شدہ کیلئے اللہ کا غضب حاصل کرتے ہیں ۔
                     پسند  اپنی  اپنی  مقام  اپنا    اپنا  ۔

     باقی آئند انشاء اللہ عزوجل   

نوٹ: اگر آپ کو کوئی بد مذہب تنگ کرے اور طرح طرح کے سوالوں میں الجھائے تو آپ ہمارئے ساتھ ضرور رابطہ فرمائیں انشاء اللہ عزوجل آپ کی پریشانی دور کر دی جائے گی۔00923338159523

0 comments:

Post a Comment

Blogger Widgets
Blogger Widgets